ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے

دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا، انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہےجب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔

کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، اگر تعلیم سے روٹی کمائی جا سکتی تو آج دنیا کے تمام پروفیسر ارب پتی ہوتے ۔اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں لیکن ان میں ایک بھی پروفیسر ، ڈاکٹر یا ماہر تعلیم شامل نہیں۔

دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی، یہ لوگ وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور ہی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں چنانچہ ان کی کامیابی انھیں کالج یا یونیورسٹی سے اسٹور، کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے۔یہ تعلیم یافتہ لوگ وژن، علم اور دماغ میں کہیں بہتر ہوتے ہیں بس ان میں ایک خامی ہوتی ہے، ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں ہوتا،انھیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہوتا۔

اگر کوئی شخص کسی کے لیے کام کر سکتا ہے تو وہ خود اپنے لیے بھی کام کر سکتا ہے، بس اس کے لیے ذرا سا حوصلہ چاہیے۔ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے لیکن جوان ہونے تک اس کے پاؤں ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں۔

دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں۔دنیا میں نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں جب کہ کام کرنے والوں کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے۔ بس یاد رکھیے کہ

“ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے۔”

*-**-*